ایمان اصل یا کفر؟

ایمان اصل یا کفر؟

شیخ رکن الدین ندوی نظامی
جامعہ اسلامیہ حیدرآباد

آج ملک میں بڑے پیمانے پر بحث چھڑی کہ سناتن دھرم اصل اور قدیم ہے اس کے صدیوں بعد دیگر مذاہب بالخصوص اسلام تو صرف ساڑھے چودہ سو سال قدیم ہے اس لحاظ سے سناتن (ہندو دھرم، جبکہ ہندو دھرم کوئی چیز نہیں ہے، بدھ، جین اور دیگر مذاہب کا تصور تو پایا جاتا ہے مگر ہندو دھرم کا تصور نہیں ہے بلکہ برہمن واد کو ملک کے تمام طبقات پر بالجبر تھوپ کر ہندو مذہب قرار دیا جارہاہے) دھرم انتہائی قدیم اور اصل مذہب ہے جبکہ اسلام نیا مذہب ہے۔۔
یہودیوں اور عیسائیوں اور ملحدوں کی جانب سے یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ قرآن ، تورات و انجیل سے نقل شدہ ہے۔۔
مسلمانوں کے لئے بالخصوص اور ملک کے تمام باشندوں کے لئے بالعموم مدعا یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کون سا مذہب قدیم اور کون سا نیاہے؟۔
بحث کا مدعا یہ ہونا چاہئے کہ اصل کیا ہے ”ایمان” یا ”کفر”؟
مذہب کی قدامت و جدت ہرگز ہرگز انسانیت کے لئے نفع بخش نہیں ہوسکتی ۔
ایمان اور کفر کی حقیقت اور انجام کو معقول دلائل سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، اس بات کو بھی اجاگر کیا جائے کہ سناتنی عقائد ملک کے تمام طبقات کو تسلیم نہیں ہے، الوہیت کا تصور انتہائی بھونڈا ہے،
عبادت کس کی کی جائے؟ یہ بھی واضح نہیں ہے۔
ملک کے طول عرض میں دیکھا جائے تو شمال کے خداؤں کا الگ انداز ہے تو جنوب میں خدائی کسی اور کی ہے؟ مشرقی اور شمال مشرقی ریاستوں میں جنوب کے معبودوں کا تصور نہیں ہے حتی کہ رام کا تصور بھی شمال میں الگ اور شمال مشرقی ریاستوں میں الگ پایا جاتا ہے۔۔
نیز رہن سہن، بود و باش اور شادی بیاہ کے طریقوں میں بھی یکسانیت نہیں ملتی۔۔ بس کسی چیز کا غلبہ ہے تو صرف برہمن واد کا ہے وہ بھی سناتن ہندو دھرم کے نام پر۔

عقائد و احوال کو بالائے طاق رکھا بھی جائے تو موجودہ حالات میں انسانیت کے لئے بہترین اور عمدہ، قابل عمل طریقۂ زندگی اور دستور حیات کیا ہے؟ اور کس کو بنایا جانا چاہئے؟
کیا عدل و قسط پر مبنی آج کی جدید دنیا میں کوئی ایسا نظریہ ہے جو اسلام کا متبادل یا مقابل ہوسکتا ہو؟

علمائے اسلام سے گزارش ہے کتاب و سنت کی تعلیمات کی حکمتوں اور موجودہ حالات میں ان کی ضرورت و افادیت پر زیادہ روشنی ڈالیں۔۔

لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿۲۲﴾
سورۃ الانبیاء21، آیت22

اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ﴿ زمین اور آسمان﴾ دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ رب العرش ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔

اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ ۚ ہٰذَا ذِکۡرُ مَنۡ مَّعِیَ وَ ذِکۡرُ مَنۡ قَبۡلِیۡ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ۙ الۡحَقَّ فَہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۲۴﴾
سورۃ الانبیاء21، آیت23

کیا اسے چھوڑ کر انہوں نے دوسرے خدا بنا لیے ہیں؟ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان سے کہو کہ ” لاؤ اپنی دلیل، یہ کتاب بھی موجود ہے جس میں میرے دور کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے اور وہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے نصیحت تھی ۔ ” مگر ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں، اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

وَ مَنۡ یَّدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرۡہَانَ لَہٗ بِہٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۱۱۷﴾
سورۃ المؤمنون23، آیت117

اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے ، جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَہُمۡ شِرۡکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ؕ اِیۡتُوۡنِیۡ بِکِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ ہٰذَاۤ اَوۡ اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۴﴾
سورۃ الاحقاف46، آیت4

اے نبی ، ان سے کہو ، کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا بھی کہ وہ ہستیاں ہیں کیا جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے ، یا آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں ان کا کیا حصہ ہے۔ اس سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب یا علم کا کوئی بقیہ ( ان عقائد کے ثبوت میں ) تمہارے پاس ہو تو وہی لے آؤ اگر تم سچے ہو۔

مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنۡ وَّلَدٍ وَّ مَا کَانَ مَعَہٗ مِنۡ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۢ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿ۙ۹۱﴾
سقرۃ المؤمنون23، آیت91

اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے ، اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *